
اس وقت سانپ کے زہر سے بچاؤ کے لئے کوئی بھی ویکسین موجود نہ تھی ۔چنانچہ بِل نے سانپوں کو پکڑ کر ان پر تحقیق کرنا شروع کر دی اور بِل ہر طرح کا سانپ پکڑنے میں ماہر ہو گئے اور انہیں snake man کے نام سے جانا جانےلگا۔سانپوں سے بِل کی دلچسپی اور بڑھنے لگی اور انہوں نے ایک ادارہ قائم کر لیا جو کہ سانپوں سے زہر اکٹھا کر کے ان پر تحقیق کرتا ۔یہ ادارہ اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا ادارہ تھا۔ بِل کا ماننا تھا کہ انسانی جسم سانپوں کے زہر کے خلاف قوت مدافعیت پیدا کر سکتا ہے ، اور یوں انہوں نے تجرباتی طور پر سانپوں کا زہر اپنے جسم میں لگانا شروع کر دیا۔ شروع میں انہوں نے اسکی مقدار انتہائی کم رکھی جو کہ 0.5ml تھی لیکن اس مقدار سے بھی ان کے ہاتھ سُوج جاتے پھرجب انہوں نے محسوس کیا کے انکا جسم زہر کے خلاف مدافعت پیدا کر رہاہے تو انہوں نے زہر کی مقدار بڑھا دی اور ہر ہفتے اپنے جسم میں خطرناک زہر کے انجیکشن لگاتے۔

بِل ہاسٹ اب تک تقریباََ دو سو سے زائد زہریلے سانپوں کا زہر اپنے جسم میں لگا چکے ہیں جس میں کوبرا اور ریٹل سنیک بھی شامل ہیں۔ اور انکی لیبارٹری میں 18 سے زائد بے حد زہریلے سانپ بھی موجود ہے جن کا زہر نکال کر بِل مختلف لیبارٹریوں اور ریسرچ سینٹرز کو فروخت کرتے ہیں۔ بِل کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ مستقبل میں ایسی ادویات اور ویکسین تیار کی جاسکیں جن سے کینسر جیسے موزی مرض کا علاج بھی ممکن ہو۔

واضع رہے کہ بِل اپنےخون میں موجود نایاب اینٹی باڈیز کی وجہ سے اب تک درجنوں زندگیاں بچا چکے ہیں۔ بِل ہاسٹ 100 سال عمر میں 15 جون 2011 میں انتقال کر گئے لیکن ان کی سانپوں کی اس تحقیق کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں