
جیمز نے 60 سال تک تقریبا
ہر ہفتے خون کا عطیہ دے کر 24 لاکھ بچوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ 2003 میں گینز۔ بک
نے جیمز ہیریسن کو سب سے زیادہ خون کا عطیہ دینے والا شخص تسلیم کر لیا تھا۔ ہیریسن کو سنہرے بازو والی
شخصیت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ان تمام عطیات کے بعد 81 سالہ جیمز گزشتہ 11 مئی کو ریٹائر ہو چکے ہیں۔
آسٹریلین ریڈ کراس بلڈ سروس کے مطابق جیمز
ہیریسن نے 24 لاکھ سے زائد آسٹریلوی شیر خواروں کی جان بچانے میں مدد کی ہے۔
ہیریسن کے خون میں ایک منفرد خصوصیت کی حامل بیماریوں سے لڑنے والی اینٹی باڈیز پائی جاتی ہیں جنہیں
"اینٹی ڈی" انجیکشن تیار کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ
انجیکشن Rhesus
Disease کے
علاج میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں حاملہ خواتین کا خون
ان کے شکم میں پرورش پانے والے بچے یا بچی کے خون کے خلیات پر حملہ آور ہو جاتا
ہے۔ اس کی بدترین صورت یہ ہوتی ہے کہ ماں کی کوکھ میں پلنے والے بچے یا بچی کا
دماغ تباہ ہو جاتا ہے یا اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
یہ
صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب حاملہ خاتون کا خون(Rh D Negative) ہو
اور بچے یا بچی کے خون کا گروپ (Rh D Positive) ہو
جو اسے اس کے والد کی طرف سے ورثے میں ملتا ہے۔ اگر ماں کے سابقہ حمل میں جچے کو
خون(Rh D Positive) ہونے کی صورت میں اسے ذی حس بنایا گیا تھا
تو وہ ممکنہ طور پر ایسی اینٹی باڈیز تیار کرسکتی ہے جو موجودہ بچے کے خارجی خون
کے خلیات کو تباہ کرنے لگیں۔
یہ
صورتحال جچے یابچی کے لئے ہلاکت خیز ہو سکتی ہے۔ ہیریسن کی جانب سے اس گراں قدر
تحفے کا آغاز اس وقت ہوا جب 14 سال کی عمر میں انہیں سینے کی ایک بڑی سرجری کے لئے
اسپتال میں داخل کیا گیا۔اس موقع پرخون کے عطیات کے ذریعے ان کی جان بچائی گئی تھی
لہذا جب وہ صحت یاب ہو گئے تو انہوں نے بھی باقاعدگی سے خون عطیہ کرنے کا عزم ظاہر
کیا۔
کچھ
سال بعد ڈاکٹرون نے یہ دریافت کیا کے ان کے خون میں وہ اینٹی باڈی شامل ہے جسے
"انٹی ڈی" انجیکشن کی تخلیق میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔لہذا انہوں نے
مکمل خون کا عطیہ دینے کی بجائے خون میں شامل پلازمہ کا عطیہ دینا شروع کر دیا
تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ ان سے مستفید ہو سکیں۔ ڈاکٹرز یقین کے ساتھ یہ نہیں بتا
سکتے کہ ہیریسن اس نایاب قسم کے خون کے مالک کیسے بنے لیکن ان کا خیال ہے کہ 14
سال کی عمر میں جب سرجری کے دوران انہیں خون لگایا گیا تھا اس وقت عطیے میں ملنے
والے خون کی وجہ سے ان کے خون میں منفرد خصوصیت پیدا ہوئی۔
آسٹریلین
بلڈ سروس کے مطابق ہیریسن کے خون میں جو اینٹی باڈیز پائی جاتی ہیں وہی اینٹی
باڈیز اسٹریلیا کے کم از کم 50 لوگوں کے خون میں بھی پائی جاتی ہیں۔ بلڈسروس کی
ترجمان جیما فالکن مائر کا کہنا ہے کہ عطیئے میں دی گئی خون کی ہر تھیلی بیش قیمت
ہوتے ہے لیکن جیمز کا خون بالخصوص غیر معمولی ہے۔

ان
کا خون جان بچانے والی دوا تیار کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ووا ان ماؤں کو
دی جاتی ہے جن کے خون سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے شکم میں پرورش پانے والے جچے
یا بچی کے خون پر حملہ آور ہوگا۔
اسٹریلیا
میں تیار کی جانے والی ہر "اینٹی ڈی" دوا کا بیچ جیمز کے خون سے بنایا
گیا ہے۔آسٹریلیا کی 17 فیصد سے زائد خواتین اس خطرے کی زد میں ہوتی ہیں اس طرح
دیکھا جائے تو جیمز نے لاکھوں جانیں بچانے میں مدد کی ہے۔ہیریسن کی اینٹی باڈیز سے
جو اینٹی ڈی دوائیں تیار کی جاتی ہیں وہ "ریس نیگیٹو" خون والی خواتین
میں دوران حمل RhD
اینٹی
باڈیز تیار کرنے سے روکتی ہیں۔
1967
کے بعد سے نیگیٹو بلڈ ٹائپ والی آسٹریلوی ماؤں کو اینٹی ڈی کی 30 لاکھ سے زیادہ
خوراکیں جاری کی جاچکیں ہیں۔ یہاں تک کی خون ہیریسن کی اپنی بیٹی کو بھی اینٹی ڈی
ویکسین دی گئی تھی۔ ہیریسن نے بتایا کہ اس ویکسین کی وجہ سے میرا جو نواسہ پیدا
ہوا وہ صحت مند تھا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ آپ کو خوشی دیتی ہے کہ آپ کی وجہ سے
کئی قیمتی زندگیاں بچ گئیں۔ آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیریسن کے خون میں
اینٹی باڈیز کی دریافت ایک انقلابی دریافت تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں