تازہ ترین

منگل، 21 اپریل، 2020

تلی کا ہمارے جسم میں اہم کردار

ہمارے جسم میں جتنے بھی اعضا ہیں وہ سب اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے بھی خراب ہونے کی صورت میں ہم صحت مند رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تاہم بعد اعضاء مثلا دل گردے دماغ جگر اور پھیپھڑے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ہم ان کے بارے میں معلومات بھی رکھتے ہیں۔

لیکن تلی ہمارے جسم کا ایسا عضو ہے جسے عام طور پر خاطر میں نہیں لایا جاتا اور نہ ہی لوگ اس کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ آج ہم آپ کو اسی عضو کے بارے میں بتاتے ہیں جو کہ آپ کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

گردے جیسا لیکن چپٹہ سایہ عضوء ہمارے پیٹ کے بائیں جانب پسلی کے نچلے حصے میں ہوتا ہے۔ جسم کے اس حصے میں ہونے کی وجہ سے جسم کو چوٹ لگنے کی صورت میں بھی یہ محفوظ رہتا ہے۔ تلی کا بنیادی کام جسم سے خون کے عمر رسیدہ خلیات کو نکالنا اور انفیکشن کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ خون کے سرخ خلیات کی اوسط زندگی 120 دنوں پر محیط ہوتی ہے۔ خون کے یہ سرخ خلیات زیادہ تر ہمارے جسم کی لمبی ہڈیوں مثلا ران کی لمبی ہڈی کے گودے میں تیار ہوتے ہیں۔

جب یہ خلیات عمر رسیدہ ہو جاتے ہیں تو تلی انہیں شناخت کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے، انہیں چھان کر الگ کرتی ہے اور پھر انہیں ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ انہی خلیات کے چھوٹے ذرات خون میں شامل ہو کر یا تو نئے خلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں یا پھر جسم کے دیگر حصوں سے خارج ہو جاتے ہیں۔

یہ سارے کام تلی کے سرخ گودے والے حصے میں انجام پاتے ہیں جہاں خون کی سب سے زیادہ نالیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہ سرخ گودے والا حصہ تلی کا تین چوتھائی ہوتا ہے۔ تلی کے بقیہ حصے کو سفید گودے والا حصہ کہتے ہیں جن میں مختلف اقسام کے مدافعتی خلیات بھرے ہوتے ہیں جن میں سے ایک Lymphocytes ہیں۔

مدافعتی نظام سے تعلق رکھنے والے یہ خلیات خون میں شامل ہو کر جسم پر حملہ آور ہونے والے جراثیم اور وائرس اس کو دوران خون سے باہر کرکے انہیں تباہ کرتے ہیں۔ یہ کام تلی کے سفید گودھے والا حصہ انجام دیتا ہے جو کہ ان خارجی خوردبینی جراثیموں کو ریزہ ریزہ کرکے انہیں ناکارہ ذرات میں بدل دیتا ہے۔

ہماری تلی جسے طحال بھی کہتے ہیں ایک پتلے نازک غلاف میں محفوظ ہوتی ہے جسے چوٹ لگنے سے نقصان کا بھی اندیشہ ہو سکتا ہے تاہم قدرت نے اسے حفاظت کے لیے اسے بائیں جانب نچلی پسلیوں میں رکھا ہوا ہے لیکن کار کے حادثے، ایسے کھیل جس میں کھلاڑیوں کے جسم باہم ٹکراسکتے ہیں اور چاکو سے لگنے والے زخم سے تلی پھٹ سکتی ہے۔

اگر خدانخواستہ کبھی ایسا حادثہ پیش آئے تو تلی سے خون کے زیادہ اخراج کے بعد زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے اور سرجن کو بحالت مجبوری تلی کو جسم سے نکالنا پڑتا ہے۔ تلی کے جسم میں نہ ہونے یا مناسب طور پر کام نہ کرنے کی وجہ سے جسم جراثیم کے حملے کی صورت میں انفیکشنز کے مقابلے سے قاصر رہتا ہے اور اس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مریض کو زندگی بھر اینٹی بایوٹک دواؤں کا سہارا لینا پڑتا ہے تاکہ جسمانی مدافعتی نظام کسی حد تک کام کے قابل رہے۔

ان دواؤں کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اگر تلی کو انفیکشن سے جسم کو محفوظ رکھنے میں بہت زیادہ محنت کرنی پڑے یا انفیکشن اس کے قابو سے باہر ہو جائیں تو پھر تلی کی جسامت بڑھ جاتی ہے۔ تلی کی بڑی ہوئی جسامت کو Splenomegaly کہا جاتا ہے. 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں