
وائرس کو اگرآسان لفظوں میں بیان کیا جائے تو یہ ایک ایسے کیمیکل
کمپاؤنڈہوتے ہیں جو کہ ہمارے سیلز کو ہائی جیک کر کے انہیں ہمارے ہی خلاف استعمال
کرتے ہیں اور یہ بھی دوسرے جانداروں کے
طرح اپنے آپ کو بہتر کرتے رہتے ہیں اور دواؤں کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔
1918 میں Spanish Infuenza نامی ایک بیماری نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں
انسانوں کو موت کے منہ میں لے گئی۔
ایک اندازے کے مطابق 50 کروڑ لوگ اس سے متاثر ہوئے، یہ دنیا کی ایک تہائی آبادی
تھی۔ شروع شروع میں یہ وباء صرف یورپ ،امریکہ اور ایشیاء کے کچھ ممالک میں دیکھی
گئی اور پھر دیکھتے دیکھتے پھیلتی چلی گئی۔اس وقت کوئی بھی دوا اس پر کارگر ثابت
نہ ہو رہی تھی اور نہ ہی کوئی ویکسین اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ سکولوں ،کالجوں،پبلک
ٹراسپورٹ،اور کاروباری اداروں کو مکمل بند
کردیا گیا اور لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں رہنے کو کہا جانے لگا۔ پوری دنیا ایک
انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار تھی۔ پورے کے پورے ہسپتال اس وباء کے مریضوں سے
بھر گئے اور مزید مریضوں کے لئے جگہ نہ
بچی تھی۔ یہاں تک کے سکولوں اور ہوٹلوں کو
عارضی ہسپتالوں میں بدل دیا گیا اور
میڈیکل کے طالب علموں کو ان کی دیکھ بھال کا ذمہ
سونپ دیا گیا۔
یہ وائرس بھی پھپھڑوں کو متاثر کرتا تھا اور ہوا کےذریعے سے
دوسرے لوگوں تک پھیل رہا تھا۔اس کی علامات میں بھی ہلکا بخاراور جسم کی تھکاوٹ
شامل تھیں اور کچھ دن بعد لوگ خود بخود ہی ٹھیک ہو جاتے اور مرنے والوں کی شرع بھی
دیگر بیماریوں کی نسبت کم تھی۔
لیکن پھر یوں ہوا کےوائرس کا دوسرا مرحلہ جب شروع ہوا تویہ
انتہائی خوفناک ثابت ہونے لگا۔ اس کا شکار ہونے والے لوگوں میں جب یہ علامات دیکھی
جاتی تو کچھ ہی گھنٹوں میں ان کا رنگ نیلا ہو جاتا اور پھپھڑوں میں پانی بھر جاتا
جس کی وجہ سے لوگوں کو سانس لینے میں شدیدمشکل پیش آتی اور لوگ جان کی بازی ہار
جاتے۔
یہ وائرس پھیلا کیسے؟
Spanish Influenza کہاں سے آیا اور کیسے پھیلا سائنسدان تاحال اس بات کا پتا نہ لگا سکے البتہ
کہا یہ جاتا ہے کہ اس وبا کا پھیلاؤ سپین سے دیکھا گیا جس کی وجہ سے اسے Spanish Influenza نام دیا جاتا ہے۔ 1918 میں جب یہ سپین میں ظاہر ہوا تو اس جگہ کو آئسولیٹ نہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ باقی
تمام ممالک تک بھی جا پہنچا اور تباہی مچا دی۔ یہاں تک کے اس وبا سے اس وقت کے
سپین کے بادشاہ بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے اور وہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔
سپین سے جب یہ فلو امیریکہ پہنچا تو وہاں اس نے امریکی
فوجیوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ اس وبا
سے مرنے والے فوجیوں کی تعداد اس قدرذیادہ تھی کہ امیریکہ کے اتنے فوجی کسی بھی
جنگ میں نہ مرے تھے۔ تقریباَ 36 فیصد امریکی فوج اس مرض کی لپیٹ میں آچکی تھی جس
میں سب سے ذیادہ تعداد امریکی نیوی کی تھی۔ یہ فوجی دنیا بھر میں پھیلے اپنے فوجی
اڈوں پر روانہ ہوئے جہاں سے یہ دوسرے ممالک میں بھی وائرس پھیلانے کا باعث بنے۔
اس وبا کا خاتمہ کیسے ہوا؟
1918سے 1920 تک اس قاتل وائرس نے تقریباَ 10 کروڑ لوگوں کو نگل لیا تھا اور پوری دنیا کی
معیشتوں کا برا حال کر دیا تھا۔ 1919 میں ایک سال بعد اس وبا نے دم توڑنا شروع
کیا، اس کی لپیٹ میں آنے والے تمام لوگ یاں تو صحت یاب ہوچکے تھے یاں ختم ہو چکے
تھے۔ اس وباء کے بعد پوری دنیا کے ماہرین اس کی ویکسین تیار کرنے میں مصروف تھے
اور بلآخر 1940 میں امریکی ماحرین نے اس کی ایک لائسنسڈ ویکسین تیار کی جو کہ کارآمد ثابت ہوئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں