تازہ ترین

ہفتہ، 30 مئی، 2020

نیلا خون اتنا مہنگا کیوں؟


ہارس شُو کیکڑے کا خون نیلے رنگ کا ہوتا ہے یہ نیلا پن اس کے خون میں موجود کاپر کی موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس کے خون کی ایک گیلن کی قیمت 60 ہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔ لیکن یہ اس کے نیلے ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔


ہارس شُو کیکڑے کا خون میڈیکل فیلڈ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔یہ ادویات بنانے کے دوران بیکٹیریا کی موجودگی کو بہت ہی کم مقدار میں شناخت کر لیتا ہے۔ہارس شو کیکڑے کے خون میں خاص قسم کےامیبو سائیٹس پائے جاتے ہیں جن کو خون سے علیحدہ کر کے ٹیسٹنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔


امیبوسائیٹس خاص قسم کے سیلز ہوتے ہیں جو کہ انورٹیبریٹس میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سیلز کسی بھی سیلز میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور  جاندار کی ساخت، ہاضمے کے نظام،ریپروڈکشن اور ریجنریشن میں اہم قردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہارس شُو کیکڑے کے خون میں پائے جانے والے امیبو سائیٹس دوسرے انورٹیبریٹس کے مقابلے میں خاص ہوتے ہیں۔


1970 میں جب سائنسدانوں کو اس کے خون کی اس خوبی کا علم ہوا تو اس کے بے جا شکار پر پاندی عائد کی گئی اور اب ادویاد سازی کے لئے ان کیکڑوں کو پکڑ کر ان کا کچھ خون نکال کر دوبارہ انہیں سمندروں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

Limulus amebocyte lysate یا LALجو کے اس ہارس شُو کیکڑے کے خون میں پایا جاتا ہے اس سے قبل سائنسدانوں کے پاس کوئی آسان طریقہ کار معلوم نہیں تھا جس سے کہ ویکسین یا دوا میں بیکٹیریا کی موجودگی کا پتا لگایا جا سکتا ۔ LAL سے قبل کسی بھی دوا کو چیک کرنے کے لئے انہیں جانوروں پر آزمایا جاتا تھا اور جانوروں پر اس کے اثرات سے یہ معلوم کیا جاتا کہ اس میں بیکٹیریا موجود ہے یا نہیں۔


لیکن پھر جب 1970 میں LALکواستعمال میں لایا گیا تو اس کی مدد سے صرف ایک قطرے سے ہی بیکٹیریا کی شناخت ممکن ہو گئی۔ صرف ایک قطرہ LALہی دوا میں موجود بیٹیریا کو جیلی میں بدل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بیٹیریا کو مار نہیں سکتا لیکن دوا میں اس کی موجودگی ظاہر کر دیتا ہے۔


ہر سال 6 لاکھ کے قریب ہارس شُو کیکڑوں کو صرف ان کے خون کے لئے پکٹرا جاتا ہے اور ان کا 30 فیصد خون نکال کر دوبارا سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خون نکالنے کے عمل کے دوران کچھ کیکٹرے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ان کے اس نایاب اور مہنگے خون کی وجہ سے ان کی تعداد میں بھی خطرناک حد تک کمی آچکی ہے اور 2016 میں عالمی  ادارہ سمندری تحفظات نے ہارس شُو کیکٹرے کی تعداد کو خطرناک حد تک قرار دے دیا ہے۔ جس پر اس کے بے جا شکار پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔


ماہرین اس کا متبادل تلاش کرنے میں مصروف ہیں تاہم جب تک کوئی متبادل نہیں مل جاتا تب تک یہی ایک واحد طریقہ ہے جس پر ساری فارماکمپنیز انحسار کررہی ہیں۔ اور یہ طریقہ کار FDAسے بھی اپروو ہے۔ لیکن اگر ہارس شُو کیکڑے مکمل ناپید ہو گئے تو یہ میڈیکل فیلڈ کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہو گی کیونکہ بہت ساری ادویات کی تیاری مشکل میں پڑ جائے گی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں